Daiye Islam Sheikh Abu Sayeed

Alehsan Media
0
داعی اسلام شیخ ابو سعید شاہ احسان اللہ محمدی صفوی

سلسلۂ چشتیہ نظامیہ کی ایک مرکزی خانقاہ صفی پور اناؤ یوپی سے حضرت شیخ عبد الصمد عرف مخدوم شاہ صفی قدس سرہ(۹۴۵ھ) خلیفہ مخدوم شیخ سعد خیرآبادی (۹۲۲ھ) خلیفہ حضرت مخدوم مینا شاہ لکھنوی (۸۸۴ھ) کی ایک کڑی شاہ محمد خادم صفی صفی پوری (۱۲۸۷ھ) اور حضرت قل ھوا للہ شاہ بارہ بنکوی (۱۳۲۴ھ) سے ہوتے ہوئے سلطان العارفین حضر ت خواجہ شہنشاہ عارف صفی محمدی (۱۹۰۳ء/۱۳۲۰ھ)تک پہنچی- آں موصوف نے ۱۸۸۵ء میں سید سراواں (الہٰ آباد شہر سے تقریباً۲۰؍کلو میٹر کے فاصلے پر مغرب کی سمت میں دہلی کولکاتا ریلوے لائن کے کنارے ایک قدیمی قصبہ) میں خانقاہ عالیہ عارفیہ کی بنیاد رکھی اور اپنے میکدۂ عرفا ن کے توسط سے چشتی نظامی صفوی فیضان سے خلق خدا کو خوب خوب سیراب کیا- 
اس میکدے کی نیابت حضرت سلطان شاہ عارف صفی سے ان کے خلف اکبر حضرت صفی اللہ شاہ عرف شاہ نیاز احمد (۱۳۷۴ھ) اور ان سے ان کے برادر گرامی مخدوم شاہ احمد صفی عرف شاہ ریاض احمد (۱۴۰۰ھ) کو ملی- یہ حضرت شیخ ابو سعید شاہ احسان اللہ محمدی صفوی مدظلہ النورانی کے والد کے عم محترم ہیں- یہ نبوی وراثت انہی سے آپ تک منتقل ہوئی- 

.........................................

حضرت شیخ ابو سعید اس دینی وروحانی خانوادے میں ۱۹۵۸ء میں پیدا ہوئے اور اسی ماحول میں پروان چڑھے- آپ مسلکاسنی حنفی، مشربا چشتی قادری، نقش بندی و سہروردی اور نسبا عثمانی ہیں، اور ان سب سے پہلے آپ مسلم اور محمدی ہیں - آپ اس پر ہمیشہ زور دیتے ہیں- اسلامی اخوت پر یقین رکھتے ہیں اور انا اول المسلمین اکثر ورد زبان رکھتے ہیں-رشتۂ اسلام و ایمان کے علاوہ زمانے میں جتنی پنپنے کی باتیں وضع کر لی گئی ہیں، آپ ان سب سے بیزار رہتے ہیں- آپ کے والد کا نام حکیم آفاق احمد اور والدہ کا نام شاہدہ بی بی تھا- والد محترم نے دونوں ناموں کو ملاکر آپ کا نام شاہد الآفاق رکھا جو آپ کی شخصیت کا صحیح معنوں میں عکاس ہے - والد ماجد کو حضرت شیخ ابو سعید ابو الخیر جو چوتھی صدی ہجری کے بڑے باکمال اور صاحب کشف و کرامت بزرگ گزرے ہیں، سے قوی نسبت تھی، اسی نسبت کے زیر اثر آپ نے صاحب زادے کی کنیت ابو سعید تجویز فرمائی -بعد میںحضرت نے اپنے تینوں صاحب زادوں کے نام میں اسماے اہل بیت کے ساتھ لفظ سعیدکو شامل کردیا ؛آپ کے صاحب زادوں کے نام بالترتیب حسن سعید، حسین سعید اور علی سعیدہیں-اسی کنیت کی وجہ سے الٰہ آباد اور اطراف میں حضرت ابو میاں کے نام سے جانے جاتے ہیں-
حضرت شیخ کی ولادت سے قبل آپ کے والد حکیم آفاق احمدرحمہ اللہ نے خواب دیکھا کہ سلطان الہند حضرت خواجہ غریب نواز قدس سرہ سے ایک نوران کے قلب میں داخل ہوا، پھر وہی نوران کی اولاد میں سے کسی میں منتقل ہوگیا- اس خواب کے کچھ دنوں بعد ہی حضرت کی پیدائش ہوئی - حضرت کے خالو جناب شکیل احمد عثمانی جن کا شمار سید سراواں کے رؤسا میں ہوتا ہے، اولاد سے محروم تھے، انہوں نے سال بھر کی عمر میں ہی حضرت کو اپنی کفالت میں لے لیا اور تعلیم وتربیت کا پورا فریضہ بطریق احسن خود ہی ا نجام دیا-
 حضرت کی ابتدائی تعلیم گھر کی چہار دیواری کے اندر ہوئی، بعد ازاں جناب علی ظہیر عثمانی علیگ نے آپ کو فارسی اور جناب درویش نجف علیمی نے انگریزی کی کتابیں پڑھائیں ، لالہ پور ضلع الٰہ آباد سے ہائی اسکول پاس کیاپھر اعلیٰ تعلیم کے لیے ۱۹۷۵ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیا جہاں سے پہلے P.U.C.پاس کیا پھر فارسی سے بی اے کرنے لگے- حضرت کی تعلیم ا بھی جاری ہی تھی کہ شاہ احمد صفی عرف شاہ ریاض احمدقدس سرہ جو زندگی کے آخری ایام سے گزررہے تھے، سلسلے کے بعض احباب کے مشورے پر اپنی خلافت و سجادگی کے مسئلے پر غور کرنے لگے- حاضرین نے یکے بعد دیگرے خاندان کے سبھی بڑوں اور جوانوں کا نام لیا لیکن حضرت کسی کے نام سے مطمئن نہیں ہوئے- آخر میں خود ہی کہا کہ اس کو بلواؤ جو علی گڑھ میں زیر تعلیم ہے - چنانچہ حضرت شیخ ابو سعید جو ابھی بانکے جوان تھے ، کو بلوا یا گیا-سلطان العارفین حضرت شاہ عارف صفی کے عرس بابرکت کے حسین موقع سے ۱۷؍ذی قعدہ ۱۳۹۸ھ/ ۲۱؍اکتوبر ۱۹۷۸ء کو غیر متوقع طور پر بعد نماز مغرب حضرت کو بیعت کیا اور بعد نماز عشا عرس کی تقریب کے دوران خلافت وسجادگی سے سرفراز فرمایا- اس وقت آپ کی عمر صرف بیس سال تھی- یہ ایک غیر متوقع واقعہ تھا جس نے آپ کی زندگی کا رخ بدل کر رکھ دیا-آپ کے اندر ایک انقلاب برپا ہوگیا- بیعت کے وقت سے ہی آپ کی آنکھوںسے آنسوؤں کا سمندر رواں ہوگیا جو تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھا -فیضان نظر نے کتاب و مکتب سے بے نیاز کردیا- سلسلۂ تعلیم رک گیا- اس کے بعد ایک سال دو مہینے اپنے شیخ کی صحبت پائی- حضرت کے شیخ پر ان دنوں استغراقی کیفیت کا غلبہ تھا-حضرت ان کے قریب ہوتے جب بھی وہ خاموش رہتے-خاموشی میں ہی راز ونیاز کی ساری گتھیاں سلجھتی رہیں- بالآخر۱۵؍محرم ۱۴۰۰ھ کو حضرت کے شیخ مخدوم شاہ احمد صفی عرف شاہ ریاض احمد قدس اللہ سرہ العزیز اپنے مالک حقیقی سے جاملے-حضرت کو اپنے شیخ کے علاوہ مولانا حاٖفط شاہ مجتبیٰ حیدر قلندر کاکوروی علیہ الرحمہ (۱۴۳۱ھ/۲۰۱۰ء)سے بھی سلاسل سبعہ کی اجازت و خلافت حاصل ہے-
 حضرت شیخ ابو سعید کی زندگی مختلف مراحل سے گزرتی رہی- شیخ کی وفات کے بعد تنہائی اور راہ سلوک میں بے یاری کابھی احساس رہا-آپ نے ریاضت و مجاہدہ شروع کیا ، مختلف اور ادو وظائف کیے-خانقاہ کے ایک حجرے میں چٹائی بچھا کر سوتے اور سر کے نیچے اینٹ لگاتے- ایک دور وہ بھی گزرا جب آپ مغلوب السماع تھے- نماز اور ضروریات کے علاوہ ہروقت آپ کا قوال نغمۂ حق سناتا رہتا- بسا اوقات قوال اکیلا ہی گانے والا اور حضرت اکیلے سننے والے ہوتے-ایک دور وہ بھی گزرا جب قریب کے جنگل میں چلے جاتے اور ذکر وفکر میں غرق رہتے - اس وقت آپ کے ساتھ مولوی عبد القیوم صاحب ہوا کرتے جو حضرت کے ساتھ خود بھی مستقل روزے رہتے - ہفتوں ہفتوں صرف ایک پیالی چائے سے افطار پر کٹ جاتے - مولوی عبد القیوم صاحب کبھی وہ بھی نہ لیتے-کبھی کبھار آپ اطراف کی بستیوں میں چلے جاتے جہاں آپ کے یا آپ کے شیوخ کے متوسلین ہوتے- آپ ان بستیوں میں ہفتوں قیام فرماتے اور ذکر و فکر اور سماع کی محفل گرم رکھتے-
 کچھ سالوں بعد آپ اپنی استغراقی اور نیم جذبی کیفیت سے باہر آئے - اس دوران شیخ ابو سعید ابو الخیر ، خواجہ غریب نواز ، مولانا روم ، حضرت خواجہ نظام الدین اولیا، مخدوم شاہ مینا، شیخ سعد خیرآبادی،مخدوم شاہ صفی، حضرت وارث پاک اور کئی دوسرے بزرگوں سے مختلف اوقات میں قوی نسبتیں رہیں- افاقے کے بعد علم الکتاب کی کمی کا شدید احساس ہوا، چنانچہ آپ مطالعہ وتحقیق کی طرف مائل ہوئے اورامام محمد غزالی، حضرت خواجہ نظام الدین اولیا،مخدوم شیخ سعد خیرآبادی، شیخ عبد الحق محدث دہلوی ، مجدد الف ثانی ، شاہ ولی اللہ ، قاضی ثناء اللہ پانی پتی، مخدوم اشرف کچھوچھوی،حضرت شیخ شرف الدین یحیٰ منیری اور دوسرے علما ومشایخ کی کتابوں اور ملفوظات کا خوب مطالعہ کیا اور بھرپور حظ اٹھایا-
 اس دوران عام مشایخ چشت کی طرح حضرت کی طبیعت میں بھی تجرد پسندی پیدا ہوگئی تھی- از دواجی زندگی کا تصور ذہن و فکر سے محوہونے لگا تھا -جب اس بات کا احسا س آپ کے خالو اور خالہ کو ہوا تو وہ ناراض ہوئے اور شادی کے لیے بضد ہوگئے- خالو اور خالہ کی رضا جوئی کے لیے بمشکل تمام اس شرط کے ساتھ شادی کے لیے تیار ہوئے کہ میری ہی طرح، بیوی بچوں کا خرچ بھی آپ لوگوں کو اٹھا نا ہوگا- انہوں نے شرط منظور کرلی اور اس طرح آپ کا عقد مسنون ۲۳؍جولائی ۱۹۸۹ء کوموضع اودھن الٰہ آباد کے شیخ ریاض احمد صاحب کی صاحب زادی مخدومہ نسیمہ بی بی کے ساتھ کردیا گیا جو نہایت خوش اخلاق ، دین دارو فاشعار اور عاشق رسول خاتون ہیں-
 ریاضت ومجاہدہ ، مطالعہ و تحقیق اور شادی خانہ آبادی کے بعد پورے انہماک اور توجہ کے ساتھ ارشاد وہدایت کی طرف مائل ہوئے- حضرت کی صحبتیں اٹھانے والے اہل نظر اس امرسے واقف ہیں کہ حضرت کی روحانی ، علمی اور فکری سطح میں کون سی زیادہ بلند ہے، یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہوجاتاہے- آپ نے شریعت وطریقت کے جامع افراد تیار کرنے کے لیے نہایت منصوبہ بندی اور پلاننگ کے ساتھ ۱۹۹۳ء میں خانقاہ عارفیہ کے احاطے میں جامعہ عارفیہ کی بنیاد رکھی - یہ تعلیمی ادارہ ۲۰۰۴ء تک سست رفتاری کے ساتھ چلتارہا- حفظ وقراء ت اور درس نظامی کی ابتدائی درجات کی تعلیم ہوتی رہی- اچھے اساتذہ اور طلبہ کی تلاش جاری رہی-۲۰۰۴ء سے تعلیمی سرگرمی تیز ہوئی، رفتہ رفتہ نصاب میں اصلاح اور نظام میں باضابطگی لائی گئی ،اصلاح و ترمیم کا یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے او ر اس وقت جامعہ عارفیہ کا تعلیمی معیار و منہاج اترپردیش کے مدارس میں کئی جہتوں سے منفردونمایاںہے -طلبہ ہر طرف سے ٹوٹے پڑرہے ہیںاور جگہ ہے کہ تنگ پڑتی جارہی ہے- اس لیے مزید تعمیر و توسیع کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی ہے- تقریبا ۲۵۰ طلبہ اس وقت زیر تعلیم ہیں- عصری ضرورتوں کے پیش نظر سائنس ، انگریزی ، حساب اور ہندی کی باقاعدہ تعلیم ہورہی ہے - اخلاقی تربیت کے لیے کتب تصوف کو بھی داخل درس کیا گیا ہے -خود حضرت شیخ طلبہ کی اخلاقی وروحانی تربیت کے علاوہ گلستان سعدی، مثنوی معنوی،مرج البحرین اور کیمیائے سعادت جیسی کتابوں کا درس دیتے ہیں - حضرت شیخ نے خانقاہ کی چہار دیواری میں جامعہ قائم فرما کر شریعت و طریقت ، تعلیم و تربیت ، قال وحال اور فقہ و تصوف کوصحیح معنوں میں یکجا کردیا ہے- قدیم خانقاہی طریق اور جدید تعلیمی نظام کا یہ حسین سنگم سید سراواں کے علاوہ ملک میں کہیں اور نظر نہیں آیا-حضرت جامعہ عارفیہ کی تعمیرو ترقی کے علاوہ دیگر درجنوں مدارس کی سرپرستی، اعانت اور مشاورت میں شامل ہیں-مختلف مقامات پر مساجد کی تعمیر وسرپرستی اور ائمہ ومدرسین کی تقرری سے بھی خاص شغف ہے- جگہ او رماحول کے مطابق مختلف مقامات پر اپنے تربیت یافتہ ائمہ و معلمین اور دعاۃ ومبلغین کو بھیجتے ہیں تاکہ ابتدائی اور بنیادی سطح پر تعلیمی ، تعمیری، اصلاحی اور دعوتی مشن کا میابی کے ساتھ آگے بڑھ سکے-
حضرت شیخ کی شخصیت ایک دوراندیش صاحب نظر، مدبرو مربی اور حکیم داعی و مصلح کی ہے - اللہ کریم کی توفیق سے بے ایمانوں کو دولت ایمان عطا کرنا ، بے عملوں کو عامل وپارسا بنانا، ناکاروں کو برسرکار اور ناپختہ لوگوں کو پختہ بنانا حضرت کا مشن ہے - وہ دوسروں کی ہدایت، اصلاح ، کامیابی اورسرخروئی کے لیے حریص واقع ہوئے ہیں اور اس کے لیے وہ شرعی حدود میںرہتے ہوئے کسی حد تک بھی جا سکتے ہیں-ان کی بارگاہ میںہندو مسلم، مومن کافر،سنی شیعہ،حنفی شافعی،دیوبندی بریلوی اور امیر وفقیر، عالم و جاہل،گورے کالے ، ہر طرح کے پیاسے آتے ہیں اور حضرت صوفی مشرب پرعمل کرتے ہوئے بلا تفریق سب کو سیراب کرتے ہیں-وہ سب کی اصلاح چاہتے ہیں اور ایک حکیم دانا کی طرح جس کے لیے جو دو ا اور جیسا پرہیز مناسب سمجھتے ہیں تجویز فرمادیتے ہیں-وہ سب کی دل جوئی کرتے ہیںاور سب کے لیے سعادت دارین کے متمنی رہتے ہیں-وہ پورے معنوں میں دل بدست آوری کو حج اکبر تصور کرتے ہیں- وہ پکے مسلم ہیں مگر غیر مسلموں کی فریادرسی، دست گیری اور عیادت سے شغف رکھتے ہیں، پورے سنی ہیں مگر غیر سنیوں سے منہ نہیں پھیر سکتے بلکہ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ انہیں صحیح طور سے قبلہ رخ کر سکیں، وہ حنفی ہیں مگر ان کی تقلید میں جمود نہیں، عصر حاضر میں دعوتی اور تبلیغی مقاصد کے پیش نظر نومسلموں پرحسب ضرورت مال زکوٰۃ خرچ کرنے کوبھی بہتر سمجھتے ہیں -
 حضرت کے دست حق پرست پر اب تک سیکڑوں افراد ایمان کی دولت سے سرفراز ہوچکے ہیں اور ہزاروں بد عمل تائب ہوکر صراط مستقیم سے لگ چکے ہیں -آپ کے دربار سادہ ورنگین کی یہ کرامت ہے کہ اس میں ہر مغرور کی پیشانی جھکتی نظر آتی ہے- ان سے مل کر بچوں کو ایک دوست، بڑوں کو ایک سرپرست ، بوڑھوں کو ایک دست گیر، عالموں کو ایک مربی اور اہل نظر کو ایک دور اندیش مفکر ومدبر کی ملاقات محسوس ہوتی ہے-آپ کی دعوت کا رنگ دل کش اور اصلاح کا طریقہ انوکھا ہے-آپ جس سے گفتگو کرتے ہیں اس کی زبان، اصطلاح، نفسیات اور مزاج کا بھرپور خیال رکھتے ہیں-سکھوں سے بات کرتے ہوئے گروبانیوں کا استعمال، ہندؤں سے گفتگو کے دوران دیومالائی قصوں اور ہندی اصطلاحوں سے استفادہ ،مخاطب کو حد سے زیادہ قریب کردیتا ہے- حضرت کی دعوتی اور اصلاحی انداز میں ،حکمت و موعظت، ترتیب و تدریج ، انفاق و بے لوثی، انذاروتبشیراور دل جوئی و خیر خواہی کے عناصر بدرجۂ اتم پائے جاتے ہیں-گفتگو میں تعلیاور ادعائیت بالکل ہی نہیں ہوتی، مگر وہ شک و ریب سے بھی مکمل پاک ہوتی ہے-وہ مقام ایمان سے گفتگو فرماتے ہیں اور وہ بھی اس دل نشیں انداز میں کہ’’ از دل خیزد بر دل ریزد ‘‘ کی پوری مثال صادق آتی ہے-بعض دفعہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دلوں پر شیخ کی گرفت ہے وہ جیسے چاہتے ہیں انہیں الٹتے پلٹتے رہتے ہیں اور بعض دفعہ چند لمحے میں بے ایمانوں، گم راہوں اور بد کاروں کو سپر انداز ہوتے اور اپنے پچھلے کرتوتوںپر احساس ندامت میں آہ وزاری کرتے دیکھ کر خود اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آتا- ایسی آنکھیں جو کبھی رونا نہیں جانتیں، جب موسلادھار برسنے لگتی ہیں، اور ایسے دل جنہیں پتھر سمجھا جاتا ہے، جب وہ موم کی طرح پگھلتے نظر آتے ہیں تو نہ چاہتے ہوئے بھی دست مسیحائی کو چوم لینے کو دل بے قرار ہوجاتا ہے-
ان کی محفل میں دل کو سکون ، عقل کو روشنی، قلب کو اخلاص، ذہن کو پختگی ، فکر کو سمت اور علم کو توانائی ملتی ہے - کج کلاہان عصر اپنا تاج ان کے قدمو ںمیں ڈالتے ہیں ، ارباب فقہ و فتاویٰ باب اجتہاد کے سامنے خود کو سجدہ ریز پاتے ہیں ، اہل علم ودانش کو اپنی تنگ دامانی کا احساس ہوتاہے اورمسند نشینان خانقاہ اس جناب میں پہنچ کر تصوف اور طریقت کی بھیک لیتے ہیں -بارہا یہ بھی دیکھا گیا کہ جو لوگ مغرور پیشانی کے ساتھ حاضر دربار ہوئے پہلی اور دوسری ملاقات کے بعد ایسے جھکے کہ کبھی گردن سیدھی نہ کرسکے، ان کی انا کے بت ہمیشہ کے لیے ٹوٹ گئے -وہ لوگ بھی ہمارے سامنے ہیں جو علم وآگہی کے غر ور سے چور تھے اور اب ان کے سر سے دستار علم ہمیشہ کے لیے اتر گئی ہے-اب وہ صرف خاموش طالب اور سوالی بن کر رہ گئے ہیں - ہم ا ن سے بھی واقف ہیں جو مولانا روم کی طرح علمی اسناد و شہادات کو درنار کرچکے ہیں اور اب ہاتھوں میں کشکول لیے روئے جاناں کو تکے جارہے ہیں- وہاں ہر منگتا کی مرادیں پوری ہوتی نظر آتی ہیں، وہ منگتا کسی بھی سطح کا اور اس کا سوال کسی بھی نوعیت کا کیوںنہ ہو- آپ کی محفل کأنّ علٰی رؤسہم الطیور کا نمونہ معلوم ہوتی ہے اور خاص بات یہ کہ گفتگو جہاں سے بھی شروع ہو ،بات مطلوب ومقصود حقیقی تک ہی پہنچتی ہے- محفل پر کبھی انذار کا غلبہ ہوتا ہے تو کبھی تبشیر کا- اس میں غم دنیا کا رونا نہیں ہوتا، فکر آخرت میں ہی آنکھیں برستی نظر آتی ہیں اور کبھی دنیا کی بات بھی ہوئی تو اس میں دین کا پہلوتلاش کرلیا گیا اور اس طرح دنیا دین بن گئی -
حضرت کے شب وروز کو جن لوگوں نے قریب سے دیکھا ہے وہ اس بات کی گواہی دیں گے کہ حضرت کے اخلاق و کردار ناقابل یقین حد تک اسوہ حسنہ کی تصویرہیں- بزرگوں کے اخلاق و عمل اور کشف و کرامات کے تعلق سے جو واقعات کتابوں میں ملتے ہیں ان کی صحبت اٹھانے والے سر کی آنکھوں سے ان کا مشاہد ہ کرتے ہیں - وہ اس دور زوال میں صحیح معنوں میں نمونہ اسلاف ہیں - نماز باجماعت کا اہتمام ، احکام شریعت کی پابندی وپاسداری، خوشی اور غم میں صبر وشکر ،ہر حال میںمسکرانا اور مسکراتے ہوئے سب کا استقبال کرنا،ہر شخص کی دل جوئی ، سب کا خیال ، اپنے چاہنے والوں کو ٹوٹ کر چاہنا اور دشمنوں کے دل کو بھی محبت سے جیت لینا ،آپ کی دل آویز شخصیت کے خاص عناصرہیں-


.........................................

Dreams make reality.’’خواب حقیقت کی تعمیر کرتے ہیں‘‘ ایک مقولہ ہے جس پر حضرت شیخ کو کامل یقین ہے- اسی یقین کے تحت انہوں نے ایک خواب سجایا ہے، اور وہ خواب ہے شریعت وطریقت، مدرسہ و خانقاہ، جدید و قدیم ، تحقیق و تفکیر، جذب وسلوک، قال وحال اور دعوت واصلاح کے اجتماع اور جسم و روح کے علاج کا- اللہ کریم بندے کے گمان کے قریب ہے انا عند ظن عبدی بی پر انہیں کامل ایمان ہے اور وہ اسی ایمان کے سہارے اپنے مشن میں لگے ہوئے ہیں-سفر جاری ہے، لوگ آرہے ہیں اور کارواں بڑھتا جارہا ہے- حضرت کا ایک بڑا وصف حب اہل بیت بھی ہے ، اللہ نے چاہا تو وہ سنت حسنین کریمین ادا کرتے نظر آئیں گے-

Post a Comment

0Comments

اپنی رائے پیش کریں

Post a Comment (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !