Chand naamwar Khwateen

Khizr-e-rah Monthlykhizr-e-rah-Aug-2015➤ Abdurrahman Jaami                                                     Download_Pdf 


چند نامور خواتین

حضرت رابعہ عدویہ علیہا الرحمہ
حضرت رابعہ عدویہ اپنے وقت کی عظیم صوفی خاتون گذری ہیں،یہ نہایت متقی ا و رپرہیزگار تھیں،اوربصرہ میں رہتی تھیں۔
حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ جیسی عظیم ہستی نے بھی ان سے فیض اٹھایاہے،وہ اکثرحضرت رابعہ عدویہ علیہا الرحمہ کے پاس جایا کرتے تھے، ان کی نصیحت سنتے اور دعا کی خواہش بھی کیا کرتے تھے۔
 ایک دن حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ اُن کے پاس گئے، اپناہاتھ بلند کیااور یہ دعاکی:
 ’’ یااللہ!میں تجھ سے سلامتی چاہتا ہوں۔‘‘
 یہ سن کرحضرت رابعہ عدویہ علیہا الرحمہ رو پڑیں ،حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ نے پوچھا کہ تم کیوں روئے؟
حضرت رابعہ عدویہ نے جواب دیاکہ مجھے تم نے رلایا ہے۔حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ نے کہا وہ کیسے؟ اس پراُنھوں نے فرمایا:
کیا تم نہیں جانتے کہ دنیا کی سلامتی اس کا ترک کرناہے اور تم اس میں آلودہ ہو رہے ہو۔
حضرت رابعہ عدویہ علیہاالرحمہ فرماتی ہیں کہ ہر چیز کا پھل ہے اور معرفت کا پھل اللہ کی طرف متوجہ ہونا ہے۔ انھوں نے یہ بھی فرمایا :
’’میں اللہ سے مغفرت طلب کرتی ہوں اس وجہ سے کہ اس استغفار میں میرا صدق کم ہے۔‘‘
حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ نے پوچھاکہ سب سے بہتر کون سی چیز ہے جس کے ذریعے بندہ اللہ رب العزت کاقرب تلاش کرے؟
حضرت رابعہ عدویہ نےجواب دیا :
 یہ جان لو کہ بندہ دنیا اور آخرت میں اللہ کے سوا دوسرے کسی کو دوست نہ رکھے۔
 ایک دن حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ نے ان کے سامنے کہا:
وا حزناہ! ہائے غم!
 یہ سن کر حضرت رابعہ عدویہ کہنے لگیں کہ جھوٹ نہ بولو! اگر تم غمزدہ ہوتے تو تمھیں زندگی بھلی نہ معلوم ہوتی۔

 حضرت فاطمہ نیشاپوری علیہا الرحمہ
حضرت فاطمہ نیشاپوری علیہاالرحمہ بھی بڑی متقی اور پرہیزگار شخصیت کی مالکہ رہی ہیں۔وہ ملک خراسان کی رہنے والی تھیں اور وہاں کی خواتین میں بڑی عارفہ اور زاہدہ تھیں۔
حضرت ابو یزید بسطامی قدس اللہ سرہٗ نے بھی ان کی تعریف کی ہے،وہ فرماتے ہیں :
میں نے اپنی تمام عمر میں ایک مرد اور ایک عورت کودیکھا ہے، وہ عورت فاطمہ نیشاپوری ہے۔
مزید فرماتے ہیں کہ میں نے اُسےکسی ایسے مقام کی خبر نہیں دی جو اُس پر پہلے سے ظاہر نہ ہو۔
 حضرت فاطمہ نیشاپوری علیہاالرحمہ کوکعبہ شریف کی مجاورہ بننے کا شرف بھی حاصل ہے۔ وہ اکثر بیت المقدس جاتی تھیں اور پھرلوٹ کر مکہ مکرمہ واپس آجاتی تھیں۔
حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ جیسی بزرگ ہستی نے بھی ان سے فیض پایاہے۔
ایک دن حضرت فاطمہ نیشاپوری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت شیخ ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ کے لیے کچھ بھیجا، انھوں نے اس کو قبول نہ کیا اور کہا کہ عورتوں کی چیزوں کے قبول کرنے میں ذلت اور نقصان ہے۔
اس پرحضرت فاطمہ نیشاپوری علیہا الرحمہ نے فرمایا: دنیا میں کوئی صوفی اس سے بہترنہیں جو سبب کو درمیان میں نہیں دیکھتا۔
ایک دن حضرت شیخ ذو النون مصری رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھاگیاکہ آپ نے کس کو اور کس گروہ میں بڑا بزرگ دیکھا ہے ؟تواُنھوں نے جواب دیا:
ایک عورت مکہ مکرمہ میں تھیں جس کو فاطمہ نیشاپوریہ کہتے تھے۔وہ قرآن کے نہایت عمدہ معانی بیان کرتی تھیں،وہ فرماتی ہیں:
 ’’جو شخص اللہ کو دل میں نہ لائے،اور اس کی تعظیم دل میں نہ رکھے تووہ ہر میدان میں آئے گا اور ہر زبان میں کلام کرے گایعنی وہ حق و باطل میں تمیز نہ کرپائے گااور جس کے دل میں اللہ کی عظمت ہوگی اس کو اللہ تعالیٰ سچ کے سوا ہر چیز سےگونگا کردے گا اور حیا واخلاص اس کے لیے ضروری کردے گا۔‘‘
وہ یہ بھی فرماتی تھیں:
 ’’آج سچا متقی ایک ایسے سمندر میں ہے کہ اس کی موجیں(حوادث) اس پر پڑتی ہیں تووہ اپنے رب کو ایسے پکارتا ہے جیسےکوئی ڈوبنے والا،اپنے رب سے خلاصی اور نجات چاہتا ہے۔‘‘
وہ مزیدفرماتی تھیں:
 ’’ جو مشاہدہ کر کے اللہ تعالیٰ کے لیے عمل کرتا ہے وہ عارف ہے اور جو ایسا عمل کرتا ہے کہ اللہ اس کو دیکھ رہا ہے تو وہ مخلص ہے۔‘‘
حضرت فضہ علیہا الرحمہ حضرت فضہ علیہا الرحمہ یکتائے روزگار عابدہ و زاہدہ تھیں اور اپنے معاصرین کے درمیان ایک اعلیٰ مقام رکھتی تھیں۔
شیخ ابو الربیع رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں:
 میں نے ایک نیک بخت عورت کا حال سنا جو ایک گاؤں میں رہتی تھیں۔ مجھے ان کی کرامت کی شہرت کی وجہ سے ان کی زیارت کا شوق پیدا ہوا،اس عورت کو فضہ کہا کرتے تھے۔ جب ہم اس کے گاؤں پہنچے تو لوگوں نے بتایا کہ اس کے پاس ایک ایسی بکری ہے جس سے وہ شہداور دودھ دوہتی ہے۔ ہم نے ایک نیا پیالہ خریدا، اس نیک عورت کے پاس گئے اور اُسے سلام کیا، پھر ہم نے کہا کہ آپ کی بکری دیکھنا چاہتے ہیں جس کی نسبت لوگ بڑا چرچا کرتے ہیں ۔وہ اپنی بکری کو لے کرآئی اور ہم نے اس پیالے میں دوہا تو دودھ اور شہد تھا۔
 ہم نے حضرت فضہ علیہاالرحمہ سے پوچھاکہ یہ کیاماجرا ہے؟ تو اُنھوںنے جواب دیا :
 ہم فقیر لوگ تھے اورہمارے پاس ایک بکری تھی۔ عید کے دن میرے شوہرنے (جو ایک مرد صالح تھا )کہا کہ آج ہم اس بکری کی قربانی دیں گے ۔میں نے کہا: نہیں!کیوں کہ ہمیں قربانی کے ترک کرنے میں رخصت ہے اور اللہ تعالیٰ ہماری حاجت کو جانتا ہے کہ اس بکری کی ہمیں ضرورت ہے ۔
 اتفاقاً اسی رات ہمارے یہاں ایک مہمان آگیا۔ میں نے اپنے شوہر سے کہا کہ ہمیں مہمان کی عزت کرنے کا حکم دیا گیا ہے ،اٹھئے اور اس بکری کومہمان کے لیے ذبح کیجئے، لیکن اسے ایسی جگہ پر لے جائیں جہاں ہمارے بچے نہ دیکھ سکیں، کیوںکہ اس کے ذبح ہونے پروہ روئیں گے۔تب وہ اس کو باہر لے گئے تاکہ دیوار کے پیچھے ذبح کریں۔
اچانک میں نے دیکھا کہ ایک بکری گھر کی دیوار سے کود کر اندر آگئی ہے،میں نے سوچاشاید وہ بکری میرے شوہر سے چھوٹ کربھاگ نکلی ہے ۔ میں باہر نکلی تو دیکھا کہ میرے شوہر بکری کی کھال اتار رہے ہیں ۔ مجھے سخت تعجب ہوا،اور میںنے یہ ساراحال اپنے شوہر سے بیان کردیا ۔
 میرے شوہرنے کہا کہ شاید اللہ تعالیٰ نے ہم کو اس سے بہتر عنایت کی ہو، کیوںکہ ہم نے اللہ کے حکم پر عمل کیا اور مہمان کی خاطرکی ہے۔
اس کے بعد حضرت فضہ علیہاالرحمہ نےکہا: اے فرزند! یہ بکری مریدوں کے دل میں چرتی ہے۔ جب ان کے دل اچھے ہیں تو اُس کا دودھ بھی اچھا ہے اور اُن کا دل بگڑا ہوا ہے تو اس کا دودھ بھی بگڑا ہوا ہوگا،چنانچہ تم اپنے دلوں کو خوش رکھو۔
امام یافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس عورت نے جو ’’مریدوں‘‘ کا لفظ کہا، اس سے مراد وہ اور اس کا شوہر تھا، لیکن خود کوچھپائے رکھنے،لوگوں کے ذہن کو موڑنے اور مریدوں کے دل کو پاک رکھنے کی ترغیب کے لیے ایسا کہا۔
مطلب یہ ہے کہ جب ہمارے دل خوش ہیں تو جو کچھ ہمارے پاس ہے وہ بھی اچھا ہے، چنانچہ تم بھی اپنے دل کو خوش رکھو ، تاکہ جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ خوش رہے۔
 (نفحات الانس،ص:۶۵۰،۶۵۵،۶۵۹)

0 Comments

اپنی رائے پیش کریں