Hikayat-e-Mashaikh

Khizr-e-rah Monthlykhizr-e-rah-Aug-2015➤ Sheikh Muhammad Bin Munawwar                               Download_Pdf 


حکایات مشائخ

سلطان طریقت،برہان حقیقت شیخ ابو سعیدفضل اللہبن ابی الخیر محمد بن احمد میہنی قدس اللہ سرہٗ یکتائے روزگار شخصیت ، عارف ربانی اورعظیم صوفی تھے۔ان کی پیدائش’خراسان‘ کے ’میہنہ‘گائوں میں۳۵۷ ہجری کو ہوئی اور ۴۴۰ ہجری میں اسی جگہ آپ نے وفات پائی۔ ’’اسرارالتوحید فی مقامات ابی سعید‘‘موسوم بہ’مقامات خواجہ‘ ان کے مخصوص احوال واقوال پر مشتمل ہے جسے آپ کےپر پوتے شیخ محمد بن منور قدس سرہٗ نے ترتیب دی ہے۔ یہ کتاب دنیائے تصوف کی مستند کتابوں میں سے ایک ہے۔
مولاناامام الدین سعیدی(ا ستاذ جامعہ عارفیہ ) نے اس کاترجمہ مکمل کرلیاہے۔۱۵ویں قسط سےاُنھیں کاترجمہ مسلسل ترتیب کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے۔(ادارہ)

حکایت
 حسن مؤدب بیان کرتے ہیں کہ ایک دن جب کہ شیخ ابوسعید اپنی مجلس سے فارغ ہو چکے تھے اور لوگ بھی جا چکے ، میں ان کے پاس کھڑاتھا، میرے اوپر اس وقت بہت قرض ہو چکا تھا، میرا دل اسی خیال میں ڈوبا ہوا تھا،اورمیری یہ خواہش تھی کہ شیخ اس معاملے میں کچھ ارشاد کردیں،اس کے باوجود اُنھوں نے کچھ نہیں کہا،اتنے میں شیخ ابوسعید نے مجھے اشارہ کیا کہ پیچھے کی جانب دیکھو،میں نے اپنے پیچھے دیکھاکہ ایک بوڑھی عورت خانقاہ کے دروازے میں داخل ہو رہی تھی، میں اس کے پاس گیا تو اُس ضعیفہ نے مجھے ایک تھیلی دی اور کہنے لگی کہ یہ سود ینار ہیں ،جاؤ اِسے شیخ کی خدمت میں پیش کردو، اور اُن سے کہو کہ ہمارے کاروبار کے لیے دعا کریں، چنانچہ میں نے وہ تھیلی اُٹھالی اور نہایت خوش ہوا،اور دل ہی دل میں یہ سرگوشی کی کہ اب بلا شبہ میں تمام قرض خواہوں کا قرض واپس کر دوں گا۔
میں اس تھیلی کو شیخ ابوسعید کے پاس لے گیا اور اُن کے سامنے رکھ دیا۔ شیخ نے ارشادفرمایاکہ اس جگہ مت رکھو،بلکہ اسے اٹھالو اور’’ حیرہ‘‘کے قبرستان میں جاؤ،وہاں چار محراب ہو ں گے،آدھا گرا ہو اہو گا، اس جگہ ایک بوڑھا سو یا ہوگا اُسے ہمارا سلام کہنا اوردینار کی یہ تھیلی اُسے دے دینا اور کہہ دینا کہ جب یہ ختم ہو جائے تو ہمارے پاس آجائے تاکہ اُسے دوبارہ دوں۔
حسن مؤدب بیان کرتے ہیں کہ میں وہاں گیا،اورایک بوڑھےشخص کو دیکھاجو نہایت کمزور تھا اورسر کے نیچے طنبور رکھے سو رہا ہے ،میں نے اس کو بیدار کیا ، شیخ کا سلام پہنچایا اور دینار کی تھیلی اُسے تھما دی،وہ بوڑھا رونے لگا ا ورکہنے لگاکہ مجھے شیخ کے پاس لے چلو۔ میں نے پوچھا کہ تمہاری یہ حالت کیسے ہوئی؟اس نے بیان کر نا شروع کیا کہ میں ایک خوشحال انسان تھا،طنبور بجانا میرا پیشہ تھا اور جس وقت میں جوان تھا لوگوں کی نظر میں بہت مقبول تھا،حال یہ تھاکہ اس شہر میں جس جگہ بھی دو آدمی اکٹھا ہوتےیابیٹھتے توتیسرا میں ہی ہوتاتھا (یعنی میرا ہی ذکرہوتاتھا) اور بہت سارے شاگر دبھی تھے، لیکن اب جب کہ میں بوڑھا ہوگیاتو میری حالت بدل گئی، کوئی بھی میرا پُرسان حال نہ رہا،ابھی میری آمدنی بھی کم ہو گئی ہےاور میرے بیوی بچے نے یہ کہہ کر گھر سے باہر نکال دیا ہےکہ ہم آپ کورکھنے سے معذور ہیں،اس لیےبرائے مہربانی آپ ہمیں معاف کریں،میں نے اور کوئی راستہ نہ پایا تو اس قبرستان میں آگیا اور دردو اضطراب کے ساتھ رو رو کے اللہ رب العزت سے فریاد کی کہ اے مالک ومولی !میں کوئی ہنر نہیں جانتا اور نہ ہی میرے اندر طاقت رہ گئی ہے، تمام لوگ مجھے چھوڑچکے ہیں یہاں تک کہ بیوی بچے بھی داغ مفارقت دے چکے ہیں،اب کوئی نہیں، بس میں ہوں اور توہے ،آج کی رات میں تیرے لیے ترانہ خوانی کروں گا تاکہ تو مجھے روٹی دے، چنانچہ میں صبح تک طنبور بجاتا رہا اور روتا رہا،پھرجب فجر کا وقت ہواتو تھکاوٹ کی وجہ سےمیری آنکھ لگ گئی اورابھی آپ نے مجھے بیدارکیاہے ۔
حسن مؤدب بیان کرتے ہیں کہ پھر میں اس بوڑھے شخص کو لے کر شیخ ابوسعید کی خدمت میں حاضر ہوا،شیخ اسی جگہ بیٹھے ہوئے تھے، وہ بوڑھا ہاتھ پاؤں کے بل شیخ کی بارگاہ میں گرا ،اور تو بہ کیا،پھر شیخ نے اس سے فرمایا: اے جواں مرد! تو نےجو تھوڑی سی عمر بے کسی اور کسمپرسی میں گزاری اورا پنے نفس کو خراب کیا وہ بے کار نہیں تھا، جاؤ اپنے رب کے سامنے وہی کلمات دہراؤ اور اِس درہم کی تھیلی سے اپناپیٹ بھرو ۔
حسن مؤدب بیان کرتےہیں کہ اس کے بعد شیخ ابوسعید نے مجھے مخاطب کیا اور فرمایا: اے حسن !کوئی بھی شخص اللہ کی بارگاہ سے محروم نہیں ہوتا، اس شخص کا معاملہ تو ابھی ظاہر ہو گیا، تیرا معاملہ بھی جلد ہی حل ہو جائے گا۔
 حسن مؤدب بیان کرتے ہیں کہ دوسرے ہی د ن جب شیخ اپنی مجلس سے فارغ ہوئے تو ایک آدمی آیا اور یہ کہہ کرمجھے دوسو دینار تھمادیا کہ اسے شیخ کے سامنے پیش کر دو، جب میں نے شیخ کی خدمت میں پیش کیا تو اُنھوں نے مجھ سے فرمایا کہ قرض کے لیے رکھ لو اورمیں نےاسے قرض کی ادائیگی میں خرچ کردیا۔

 حکایت
 حسن مؤدب بیان کرتے ہیں کہ ایک وقت مجھ پر صوفیائے کرام کا قرض بہت زیادہ ہو گیا اور میں صبر کرتارہا کہ شیخ ابوسعید اس کے متعلق کچھ فرمائیں۔ چنانچہ ایک دن صبح کی نماز ادا کرنے کے بعد مجھ سے فرمایا: اے حسن !کاغذ کاایک ٹکڑا،دو ات اورقلم حاضرکرو، میں نےاللہ اکبر کہا اور قلم و کاغذ پیش کیاتو شیخ نےمجھ سے فرمایا کہ یہ کاغذ لو اور خانقاہ سے باہر چلے جاؤ، دائیں جانب سے جو شخص بھی تمہارے رو بر ہو اُسے یہ دے دینا۔ حسن بیان کرتے ہیں کہ جب میں باہر گیاتو ایک جوان شخص میرے سامنے آیا،میں نے سلام کیا اور شیخ ابوسعید کی جانب سے بھی سلام پیش کیا اور وہ کاغذاُسے تھما دیا، اس نے کاغذ کو بوسہ دیا اور آنکھوں سے لگایا، مگروہاں تاریکی تھی اس لیے پڑھنا ممکن نہ تھا،ہم دونوں غسل خانے کے دروازہ پر پہنچے، پھر وہ جوان غسل خانے کے اندر چلا گیا اور اُسےپڑھا، اسی کا کوئی معاملہ تھا، اس نے مجھ سے کہاکہ مجھے شیخ کے پاس لے چلو، میں اس کو شیخ کے پاس لے آیا ،اس نے سلام کیا ،پھر سو دینار اورمشک کی ایک تھیلی( عود کا ٹکڑا) شیخ کے سامنےرکھ دی ، شیخ نے فرمایاکہ دل کو مطمئن رکھو، اس لیے کہ تمہارا مقصد اس جگہ حاصل ہوجائے گا ،وہ نوجوان باہر نکلا اور مجھ سے کہا کہ میرے ساتھ چلو ،میں اس کے ساتھ ہو لیا اور قافلے کے پڑاؤ کی جگہ پہنچا، اس نے پھرسو دینار نکالا اورمجھےد یتے ہوئے کہا کہ شیخ کے قرض کی ادائے گی کے لیے اسے رکھ لو، اگر میرا مقصد اس جگہ حاصل ہو جاتا ہے تو میں سو دینار اور بھی نذر کروں گا ۔ میں نے اس سے سوال کیا کہ تیرا معاملہ کیا ہے؟ اس نے کہا کہ میرا ایک ساتھی’یلغار‘ میں ہے اور دوسرا ’نہوالہ‘ میں۔ تین سال کے بعد گذشتہ رات میرے پاس ایک قاصد یہ خبر لےکر آیا کہ تمہار ا ساتھی’ مرو‘میں آیا ہوا ہے، تو میں نے’’مر و‘‘ جانے کا ارادہ کر لیا،پھر’’ مرو‘‘ سے دوسرا قاصد آیااور اس نے مجھے یہ خبر دی کہ تمہارا دوسرادوست ’’بہری‘‘ پہنچا ہوا ہے ،میں پوری رات یہ سوچتا رہا کہ’’ مرو‘‘ جاؤں یا’’ بہری‘‘۔ صبح کے وقت میرے دل میں یہ خیال آیاکہ آج صبح شیخ ابوسعیدکے پاس جاؤں گا، سو دینار اور تھوڑی سی خوشبو بھی لے جاؤںگااور اُن سے پوچھوں گا کہ ’مرو‘جاؤں یا ’بہری‘؟ وہ جو اِشارہ کریں گے میں اسی پر عمل کروں گا ۔پھرصبح کو جب میں جا رہا تھاکہ تم میرے سامنے آگئے اور یہ کا غذ تھما دیااور اس وقت جب شیخ ابوسعیدنے اپنی زبان سے یہ کہہ دیاکہ مقصود اسی جگہ حاصل ہو جائے گا، اس لیے میں منتظر ہوں کہ کیا واقعہ رونما ہو تا ہے ۔
حسن مؤدب بیان کرتےہیں کہ میں نے ظہر کی نماز کے وقت اس نوجوان کو دیکھا، اس نے مجھ سے کہا کہ جو دوست ’’بہری‘‘ آیا ہو اتھا وہ یہاں پہنچ گیاہے ،دوسری نماز کے وقت میں بازار کی طرف گیا تو میں نے اس نوجوان کو دیکھا کہ میری طرف دوڑ اچلاآرہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ دوسرا دوست بھی’’ مرو‘‘ سے یہاں پہنچ گیا ہے ،میں تمہاری ہی تلا ش میں یہاں آیا ہوں اور جیسا کہ شیخ نے فرمایا تھا کہ مقصد اسی جگہ حاصل ہوجائے گا وہ حاصل ہو گیا، پھر اُس نے مجھے سو دینار الگ سے دیے ،جسےمیں نےشیخ ابوسعیدکی بارگاہ میں پیش کردیا۔
 حکایت حسن مؤدب بیان کرتے ہیں کہ ایک بار کئی دن گذر گئے مگر خانقاہ میں گوشت نہیں بنا ،اس کی وجہ مجھے بھی معلوم نہ تھی، پھرسارے احباب کا مطالبہ بھی تھا کہ گوشت لایا جائے ۔
ایک دن شخ نے دوران وعظ مجھے مخاطب کیا اور فرمایا: حسن! اُٹھو، میں حسب ارشاد اُٹھ کھڑا ہو گیا ،شیخ نے ایک جوان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مجھ سے فرمایا کہ اس کے قریب جاؤ اور اس سے کہو کہ اپنی قبا میں جوایک دینار اور ایک سکےکی تھیلی چھپائے ہو مجھے دےدو ، میں اس جوان کے پاس پہنچا اور کہا کہ شیخ نے ارشاد کیا ہے کہ ایک دینار اور ایک سکے کی تھیلی جو تمہارے پا س موجودہے وہ فقرا کے لیے نذر کر دو۔
جب اس نےیہ سنا،رونے لگا ،پھر قبا کھول کر روپے کی تھیلی مجھے دے دی،میں نے شیخ کے سامنے پیش کردیا ، انھوں نے ارشاد فرمایا کہ اسے لے کر لوہاروں کے بازار چلے جاؤ، وہاں تمھیں ایک جوان قصاب ملے گا جو ایک شیر خوار بکری کے بچے کو لٹکائے ہوئے بیچ رہا ہوگا، اس سے مول بھاؤ کر کے وہ بچہ خرید لینا،پھر اس قصاب کو اپنے ساتھ لے کر اُس بچے کو ایک خندق میں پھینک دیناتاکہ اس سے جانور اپنا پیٹ بھرلے ۔
 حسن مؤدب بیان کرتے ہیں کہ میں بازار کی طرف نکلا اور راستے بھر یہی سوچتا رہا کہ کئی دن ہوگئے خانقاہ میں گوشت نہیں آیا اور شیخ نے اس بکری کے بچے کو کتوں کے حوالے کر نے کو فرمایا ہے ۔ اسی معمہ میں الجھا ہوا بازار پہنچ گیا، پھر شیخ نے جس طرح نشاندہی فرمائی تھی ویساہی میں نے پایا، اس جوان سے بکری کابچہ خرید کر میں اپنے ساتھ ایک طرف لے آیا، پھر جس طرح شیخ نے فرمایا تھا اسی طرح کیاکہ میں نے اس بچے کو کتوں کے سامنے ڈال دیا ،میں نے دیکھاکہ لوگ میری اس حرکت کو دیکھنے کے لیے اکٹھا ہو گئے ، اسی بیچ اس نوجوان نے رونا شروع کر دیا اور مجھ سے فریاد کرنے لگا کہ مجھے شیخ کے پاس لے چلو،میں اس جوان کولے کر حاضر خدمت ہوا ،اس نے شیخ کو دیکھتے ہی اپنا سر اُن کے قدموں پررکھ دیا اور توبہ و استغفار کرنے لگا ،میں شیخ کے رو برو تھا ،انھوں نے مجھ سے فرمایا کہ اے حسن ! سنوچار ماہ پہلے اس جوان نے اس بکری کے بچے کو زخمی کر دیا تھا، گذشتہ رات وہ بچہ زخم کی تاب نہ لاسکا اور مر گیا ،جوان کی نیت میں فساد تھا، اس لیے اس نے اُسے پھینکنا گوارہ نہ کیا اور اُس مردار کو اپنی دوکان میں ذبح کر کے فروخت کرنا چاہااورہمیں یہ گوارہ نہ ہوا کہ وہ مخلوق کے حلق میں جائے اور کوئی مسلمان اس مردار کو کھائے ۔
اس کے بعد شیخ نے فرمایا کہ اس طرح سے یہ شخص بھی اپنی منزل پا گیا اور وہ مردار جو جانوروں کا حصہ تھا وہ بھی ان تک پہنچ گیا۔ اے حسن! تم تجسس میں نہ پڑو ،کیا تمھیں معلوم نہیں کہ یہ مردان الٰہی پاک گروہ ہیں پاک کے سوا کچھ بھی نہیں کھاتے ۔
 پھر وہ نوجوان جس نے دینار کی تھیلی پیش کی تھی کھڑا ہوا، اور شیخ سے عرض کیا کہ حضور ! مجھ ناچیز کے پاس حلال بکریاں ہیں اگر اجازت ہو تو میں بیس موٹے تازے بکرے ان درویشوں کے لیے پیش کر دوں۔شیخ نے اجازت مرحمت فرمائی اور سب سے ارشاد فرمایا کہ اب یہ جوان بھی کامیاب ہوگیا او ر تم لوگ حلال گوشت بھی پاگئے ۔

 حکایت
 یہ اس زمانے کی بات ہے جب خواجہ ذکرہ اللہ بالخیر نیشاپور میں قیام پذیر تھے ۔کسی مسجد کا ایک مؤذن تھا جو نہایت خوش آواز تھا ،ایک رات وہ اذان خانے میں قرآن کریم کی تلاوت کر رہا تھا ، پڑوس میں کوئی ترکی تھا جو مریض تھا ، اس ترکی کو مؤذن کی آواز بہت پسند آئی،چنانچہ وہ تلاوت سن کر رونے لگا،صبح ہوئی تو اُس ترکی نے ایک آدمی کوبھیج کرمؤذن کو بلوایا ، مؤذن اس ترکی کی دعوت پر پہنچا ،ترکی نے اس سے کہا کہ گزشتہ رات اس اذان خانے میں تم ہی تلاوت کر رہے تھے ؟ مؤذن نے کہا: ہاں! میں ہی تھا، ترکی نے درخواست کی کہ پھر سے سناؤ، مؤذن نے اسی لحن میں پانچ آیتوں کی تلاوت کرکے اُسے سنایا، اس نے خوش ہو کر روپے کی ایک تھیلی اس کونذر کیا، مؤذن وہ تھیلی لےکروہاں سے سیدھے شیخ ابوسعید کی مجلس میں پہنچا ،شیخ ابوسعید اُس وقت وعظ میں مصروف تھے اسی درمیان دوسگبان خانقاہ میں داخل ہوئے اور شیخ سے کچھ روپے طلب کیا ، شیخ نے اپنا چہرہ مؤذن کی طرف متوجہ کیا اور اس سے فرمایا کہ جو روپےکی تھیلی تونے ترکی سے پائی ہے ان دونوں کو دےدو۔ مؤذن حیرت میں پڑ گیا کہ جس وقت ترکی نے مجھے وہ تھیلی دی تھی وہاں میرے اور اُس کے علاوہ کوئی بھی تیسرانہیں تھا ، آخر شیخ ابوسعیدکو کس نے بتایا،وہ اسی فکر میں تھا کہ شیخ نے برجستہ فرمایا:
 غسل خانے کا پانی گندہ تالاب ہی کے لائق ہوتا ہے۔ مؤذن نے خوشی کا اظہار کیااور روپےکی تھیلی ان لوگوں کو دے دی ۔ (جاری)

0 Comments

اپنی رائے پیش کریں