Ilm-e-Tasawwuf Ka Maqsood

Khizr-e-rah Monthlykhizr-e-rah-Aug-2015➤ Sheikh Ahmad Zaruq Maliki                                         Download_Pdf 


علم تصوف کا مقصود

حضرت شیخ احمد زروق فاسی مالکی (۸۴۶-۸۹۹ھ)اپنے عہد میں شریعت وطریقت کے امام گزرے ہیں،آپ کی تصنیفات میں عدۃ المریدالصادق اورقواعدالتصوف امتیازی شان رکھتی ہیں۔خاص طورسے ’’قواعد التصوف‘‘ فقہ و تصوف کے باہمی رشتوں کی وضاحت اورتصوف کے اصول وضوابط کے بیان پر بنیادی حیثیت کی حامل ہے۔
 مولاناضیاء الرحمن علیمی (ا ستاذ جامعہ عارفیہ) اس کا ترجمہ کررہے ہیں۔عوام وخواص کے علمی افادے کی غرض سےیہ ترجمہ ترتیب وار پیش کیا جارہا ہے۔(ادارہ)

۱۳۔ قاعدہ
جس مقصد سےکسی شئے کا وجود ہوتاہے وہی اس کا فائدہ کہلاتا ہے ،اورابتداو انتہامیں یا ابتدا وانتہا دونوں میں جو اس کی حقیقت ہوتی ہے وہی حقیقت اس فائدے کا سبب ہوتی ہے۔جیسے تصوف ایک علم ہے جس کا مقصود دلوں کی اصلاح اوردل کو ماسوا سے جداکرکے اس کو خالص رب تعالیٰ کی طرف متوجہ کردیناہے۔فقہ کا مقصود عمل کی اصلاح،نظام شریعت کی حفاظت اور احکام کے اسراراور اس کی حکمتوں کا ظہور ہے۔علم اصول کا مقصد برہان ودلیل سے عقیدے کی تحقیق اور اس کا اثبات اور ایمان کواِیقان کی دولت سے آراستہ کرناہے۔علم طب کا مقصود جسموں کی حفاظت ہے اور علم نحو کا مقصود زبان کی حفاظت ہے ،اسی طرح اور دوسری مثالیں بھی ہیں۔

۱۴۔ قاعدہ
 کسی بھی شئے کے فائدے کا علم اور اس کا نتیجہ ہی اس شئےکے احساس اور اُس کی طلب کے آغازپر آمادہ کرتا ہے، کیوںکہ دل میں اس کے فائدے کے حصول کی لگن ہوتی ہے بشرطیکہ وہ فائدہ طبیعت کے موافق ہو،ورنہ نتیجہ اس کے برعکس ہوتا ہے اور یہ بات درست ہے کہ جس شئے سے کسی شئے کا تعلق ہو،اگروہ شئےشرف وبزرگی والی ہوتواُس کی وجہ سے دوسری شئے بھی شرف وبزرگی والی ہوتی ہے اور علم تصوف کا تعلق جس چیزسے ہےاس سے بڑھ کر شرف وبزرگی والی کوئی بھی چیز نہیں، اس لیے کہ علم تصوف کی بنیادخشیت وتقویٰ پر ہےجو معرفت الٰہی اور احکام الٰہیہ کی پیروی کا نتیجہ اور اُس کا ثمرہ ہے۔جب کہ علم تصوف کا مقصود یہ ہے کہ قلب کو ہر چیز سے بےپرواکرکےاُسےصرف اللہ رب العزت کے ساتھ لگایاجائے۔
 حضرت جنید بغدادی رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
اگر آسمان کے سائبان کےنیچے اس علم سے زیادہ شرف وبزرگی والا کوئی علم ہوتاجس پر ہم اپنے اصحاب کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں تو اس علم کی تحصیل کے لیےمیں ضرور کوشش کرتا۔

۱۵۔ قاعدہ
 کسی شئےکی اہلیت ولیاقت کاتقاضا ہے کہ اہل کو ہی اس چیزسے نوازا جائے ،اس لیے کہ جواہل ہوگاوہی صحیح معنوں میں اس کی قدر کرے گااور وہی اس نعمت کو اُس کے صحیح مقام پر رکھے گا،اور جو نااہل ہوگا وہ اکثر اس نعمت کو ضائع کردےگا، البتہ!کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وہ نعمت خود نااہل انسان کو اس نعمت کی اہلیت حاصل کرنے کی طلب پرآمادہ کردیتی ہے، لیکن ایساشاذو نادرہی ہوتاہے۔
اسی وجہ سے نااہلوں کو علم سےنوازنے کے سلسلےمیں صوفیا کا اختلاف ہے:
ایک جماعت اس بات کی قائل ہے کہ اہل کو ہی علم سے نوازا جائے۔یہی سفیان ثوری وغیرہ کامذہب ہے۔
ایک جماعت اس بات کی قائل ہے کہ اہل اورنااہل سب کے سامنے علم کو پیش کیاجائے،کیوں کہ علم کے اندر خود ہی اتنی غیرت ہے کہ وہ نااہلوں کے ہاتھ نہیں آئے گا۔ یہی حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کا موقف ہے۔
ان سے پوچھا گیاکہ آپ توعام لوگوں کے سامنےبھی اللہ کی پکار لگاتے ہیں اور ان لوگوں کوبھی قرب الٰہی کے حصول کی دعوت دیتے ہیں تو انھوں نے جواب دیاکہ میں عام لوگوں کے سامنے اللہ کی پکار نہیں لگاتا،بلکہ رب تعالیٰ کی بارگاہ میں عام لوگوں کو بلاتا ہوں۔
مطلب یہ ہے کہ حضرت جنید بغدادی رحمہ اللہ علیہ لوگوں کے سامنے ایسی باتیں کرتے ہیں جو ان کو رب تعالیٰ کی طرف متوجہ کردیتی ہیں،اس طرح ایک جماعت پر اللہ کی حجت واضح ہوجاتی ہے اور ایک جماعت کے خلاف حجت قائم ہوجاتی ہے۔حق یہی ہے کہ نسبتوں اور شئےکے انواع واقسام کے لحاظ سے حکم میں بھی اختلاف ہوتا ہے۔

0 Comments

اپنی رائے پیش کریں