Rabbani Banein Ramzani Nahin

Khizr-e-rah Monthlykhizr-e-rah-Aug-2015➤ Iftikhar Alam Saeedi                                                      Download_Pdf 


ربانی بنیں رمضانی نہیں

اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام اعمال میں سب سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ ہے جس کی پابندی سب سے زیادہ کی گئی اگرچہ وہ تھوڑاہی ہو

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ هَدَیْتَنَا وَ هَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ(آل عمران۸)
ترجمہ:اے ہمارے رب!ہمارے دلوں کو ہدایت دینے کے بعد ٹیڑھا نہ فرما،اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما،بےشک تو سب سے زیاد ہ دینے والا ہے ۔
رمضان کا مقدس مہینہ ہمارے بیچ ا ٓیا او ر گزر گیاجس مبارک مہینےمیں مومنین و صالحین کے لیے بالخصوص اور عام مسلمین کے لیے بالعموم رحمت و برکت کے خزانے کھول دیےگئے تھےاوریہ مہینہ ان میں سے ہر ایک کے لیے نفع ہی نفع تھا۔ مؤمنین و صالحین تواِس رمضا ن مبارک کےگز رنے پر غم و اندوہ میںڈوب جاتے ہیںاور اُس کی جدائی میںآنسو بہاتے رہتےہیں،اس بات کو یاد کرتے ہوئے کہ اس مہینے کے دنوںمیں روزہ رکھنے اور راتوں میں تراویح کی خیرو برکت چلی گئی ،نیزوہ اِس فکر میں بھی مبتلا ہوجاتے ہیں کہ اب مسجدیں ویران ہو جائیں گی،جب کہ زیادہ تر لوگوں کواِس بات کی پرواہ نہیں ہوتی،وہ عبادت سے بےپرواہ ہو جاتے ہیں اور ا پنی اپنی دنیا میں مشغول ہو جاتے ہیں، اِس کے باوجودکہ وہ لوگ ماہِ رمضان میں اللہ رب العزت کے قرب کی لذت و حلاوت محسوس کر چکے ہوتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جب وصال ہوا تو خلیفۂ اول حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایاتھا کہ جو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی عبادت کرتاتھاوہ سن لے کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) کی وفات ہو چکی اور جو اللہ رب العزت کی عبادت کرتا تھاتو بے شک وہ زندہ ہےاس کے لیے موت نہیں۔
چنانچہ اس حدیث کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ جو رمضان مبارک کی عبادت کرتا تھا تو اَب وہ گزر گیا اور جو اللہ رب العزت کی عبادت کرتا تھا تو بے شک اللہ زند ہ ہے جسے کبھی موت نہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
كُلُّ مَنْ عَلَیْهَا فَانٍ(۲۶) وَّ یَبْقٰی وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلٰلِ وَ الْاِكْرَامِ (رحمٰن۲۷)
یعنی جو کچھ زمین پر ہے ختم ہو نے والا ہے اور باقی رہےگی آپ کے رب کی ذات جو بڑی عظمت اور احسان والی ہے۔ 
ایک دوسرے مقام پر ارشادہے:
 لَا اِلٰهَ اِلَّا هُوَ كُلُّ شَیْءٍ هَالِكٌ اِلَّا وَجْهَهٗ لَهُ الْحُكْمُ وَ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ (قصص۸۸)
ترجمہ:اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ،کیوں کہ اس کی ذات کے سواہر چیز ہلاک ہونے والی ہے ، اسی کی حکومت ہے اور اسی کی طرف تمھیں لوٹنا ہے ۔
لہٰذا مسلما نوں کو رمضان کے گزرتے وقت غم و اندوہ کے عالم میں گریہ وزاری کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ عبادت و ریاضت سے منھ موڑلینے کی۔
اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّتِیْ نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِنْۢ بَعْدِ قُوَّةٍ اَنْكَاثًا (نحل۹۲)
ترجمہ:اس عورت کی طرح نہ ہو جاؤجس نے اپنا سوت مضبوطی کے بعد ریزہ ریزہ کر کے توڑدیا ۔
اس آیت کریمہ میں اللہ رب العزت اپنے بندوں سے تلقین فرما رہا ہے کہ اے میرے بندو !تم اس عورت کی طرح نہ بنو جو محنت و مشقت سے کپڑا تیار کرتی ہے اور پھر جب مکمل ہونے والا ہوتا ہے تو اس کو ریزہ ریز ہ کر کے بکھیر دیتی ہے جس سے اس کا عمل اکارت ہو جاتا ہے، لہٰذا بندے کو چاہیے کہ وہ اس عورت کی سی بیوقوفی نہ کرے اور رمضان میں ملی ہو ئی ایمانی حلاوت و لذت کو بے عملی کی وجہ سے،خود سے دور نہ کرے ۔اس طور پر کہ رمضان مبارک میں روزے رکھتا ہے، اس کی راتوں میں نماز کی پابندی کرتا ہے، ایثار و قربانی کرتا ہے، خواہشات کی پیروی سے خودکوروکتا ہے اور سستی و کاہلی چھوڑ کراحکام الٰہی کی پابندی کرتا ہےجن کے بدلے اللہ تعالیٰ اُنھیں حلاوت ایمانی سے نوازتا ہے،اورپھرجب ماہِ رمضان رخصت ہوجاتا ہے توپھرسے دین سے دور ہوجاتا ہے۔
لہٰذاجب ہم لوگ رمضان مبارک کے مہینے میں روزے کی لذت اور قیام اللیل کی حلاوت محسوس کرتے ہیں،تو ہمارے لیے یہ عقلمندی نہیں ہے کہ اللہ رب العزت کی اس عظیم نعمت کو رمضان گزرتے ہی فراموش کردیں، بلکہ دانشمندی یہ ہے کہ اس حلاوت ایمانی کو بہرحال قائم رکھیں اور یہ نعمت الٰہی مسلسل عبادت کرنے سے ہی قائم رہتی ہے۔
ایک قابل غور بات یہ بھی ہےکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ ایک آن اس کی عبادت کی جائے،اورپورا دن بلکہ پورا مہینہ اور پوراسال اس کی یا د سے غافل رہاجائے،بلکہ دین میں اصل استقامت و پائیداری ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَاسْتَقِمْ كَمَا اُمِرْتَ وَ مَنْ تَابَ مَعَكَ وَ لَا تَطْغَوْا اِنَّهٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ (ہود۱۱۲)
ترجمہ:(اے محبوب!)آپ ثابت قدم رہیں جیسا کہ آپ کو حکم دیا گیا اور وہ بھی ثابت قدم رہیںجو توبہ کرکے آپ کے ساتھ ہوں ۔( اے لوگو!) سرکشی نہ کرو ،کیوں کہ جو کچھ تم کر رہے ہو، اللہ رب العزت اُسے دیکھ رہاہے ۔
اس آیت کریمہ سے یہ بات ثابت ہو تی ہے کہ اللہ رب العزت اپنے بندوں کو ہر وقت عبادت پر قائم رہنے کا حکم دیتا ہے ۔ رمضان میں عموماً ہر خاص و عام اس حکم پر عمل پیرا نظر آتے ہیں لیکن رمضان جیسے ہی گزرجاتاہے اکثر و بیشتر لوگ عبادت سے دور ہو جاتے ہیں ۔حد تو یہ ہےواجبات و فرائض کو بھی پس پشت ڈال دیتے ہیں،جب کہ ہر انسان کے لیے عبادت و طاعت پر ہمیشہ قائم رہنا لازم ہے ۔
 اللہ رب العزت ارشادفرماتاہے:
وَ اعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰی یَاْتِیَكَ الْیَقِیْنُ(حجر۹۹)
ترجمہ:اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے رہو،یہاں تک کہ موت آجائے ۔
اس سے اندازہ ہوتاہے کہ بندے کو رمضانی ( رمضان کے مہینے میں عمل کرنے والا ) نہیں،بلکہ ربانی (پور ا سال اللہ کی عبادت کرنے والا) ہونا چاہیے،اس لیے کہ رمضان گزر جانے کے بعدبھی بندے سے اعمال منقطع نہیں ہوجاتے اور نہ ہی فرشتے ان کے اعمال لکھنے سے قلم اٹھا لیتے ہیں۔
 یہاں یہ بھی ذہن میں رہے کہ قرآن کریم صرف رمضان کے لیے نازل نہیں ہوا کہ اس پرمحض رمضان میں عمل کیا جائے اور باقی مہینوں میں نفسانی خواہشات میں منہمک رہا جائے،اس لیے کہ قرآن کریم مسلمانوں سے ہجرت کرکے دوسرے کے پاس نہیں جاتا،اورجب ایسا نہیں ہے تو بندے کو رمضان کی طاعت و عبادت بر قرار رکھنی چاہیے ، ہمیشہ تلاوت قرآن کرنی چاہیے ، اس لیے کہ قرآن کریم کی تلاوت سےنفس پاک ہو تاہے، قلب کی گندگی دور ہوتی ہے اوربندے کے اندر ملکوتی صفات پیدا ہوتےہیں۔ جو لوگ محض رمضان میں عبادت کرتے ہیں وہ رمضان کے علاوہ اللہ رب العزت کو نہیں جانتے،جب کہ وہ شخص جونیک اورصالح ہوتاہے جو پورے سال اللہ رب العزت کی عبادت کرتا ہے اور سنتوں کی پابندی کرتا ہےوہ ہمیشہ معرفت الٰہی سے لطف اندوز ہوتا ہے ۔
رمضان کے اعمال اللہ کی بارگاہ میں قبول ہوتے ہیں یا نہیں ،کس کواس کی خبر ہے ؟ کوئی یقینی دعوی نہیں کر سکتا کہ فلاں کی عبادت مقبول ہو ئی اور فلاں کی ردّ،چنانچہ ایک صالح بندےپرلازم ہے کہ ہر عمل کے بعد وہ اس کی قبولیت اور عدم قبولیت کا محاسبہ کرے ،اسی طرح رمضان کے اعمال پر بھی ہرایک کو محاسبہ کرنا چاہیے کہ ان کی رمضانی عبادتیں، ریاضتیں اور مجاہدات کہیں اللہ رب العزت کی بارگاہ سے ردّ تو نہیں ہوگئے ۔رمضان گزرنے کے بعد بندوں کے لیے غفلت میں  پڑے رہنے کا وقت نہیں ہے بلکہ محاسبہ کرنے کا وقت ہے، کیوںکہ جو شخص اپنے گذشتہ اعمال کا محاسبہ کرتاہے وہ لازمی طورپر غفلت میں نہیں پڑتا،اوروہ اللہ رب العزت سے ڈرتے ہوئے مسلسل عبادات میں لگا رہتا ہے، نیز ایسے بندوں کے ذہن میں یہ بات بھی غالب رہتی ہے کہ آئندہ مجھ سے کوئی ایسا عمل نہ سرزد ہو جائے کہ اس کی وجہ سے اللہ رب العزت ہمارے گذشتہ تمام اعمال کو ردّکر دے، لہٰذا رمضان کے پاکیزہ اعمال کواکارت ہونےسے بچانے کے لیے کم از کم ہر ایک پر لازم ہے کہ وہ مستقبل میںبھی اللہ رب العزت سے غافل ہو کر اپنے کیے ہوئے اعمال کو برباد نہ کر دے ۔

 مقبول اعمال کی نشانیاں

 ۱۔ بندہ اللہ رب العزت کی عظمت و بڑائی کے سامنے عاجز و انکساری کے ساتھ کھڑا رہتاہےاوراُس کی عبادت کرتا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ بندے کے اندر جس قدر اللہ تعالیٰ کے قرب کا احساس ہوتا جائے گا اس کے اندراُسی قدراِنکساری کی صفتیں پیدا ہو جائیں گی اور یہ حالت ہوجائےگی کہ وہ اپنے تمام اعمال کی بجا آوری میں اللہ رب العزت کا شکر ادا کرتا رہے گااور اس کی توفیق سمجھتا رہےگا، اس لیے کہ بندہ اعمال صالحہ کرنے کے بعد اُن اعمال کواللہ کی توفیق سمجھتا ہے، لہٰذا وہ ایک عمل کے بعد غفلت ونسیا ن میں نہیں پڑتا بلکہ ہر وقت اس کا شکر ادا کرتا ہے ۔

۲۔ نعمت الٰہی کی گواہی دیتا ہے،لیکن اگر بندے سے ان کے اعمال قبول ہونے سے متعلق پوچھا جائے تو وہ یہ جواب دیتاہے کہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے، وہ اپنے ہر عمل کواللہ کااحسان سمجھتا ہے اور خود کو حقیر و ذلیل گردانتا ہے۔

 ۳۔ نفس اور عمل کے عیوب سے باخبر رہتا ہے،وہ اس طورپر کہ ہر عمل کے بعد وہ احساس کرتارہتا ہے کہ اس نے اپنے عمل کی کما حقہ رعایت نہیں کی۔ یہ احساس بندے کو مزید عبادت و ریاضت کی طرف ابھارتا ہے اور طاعت پر رغبت دلاتاہے ۔

۴۔ قلب کو اِستقامت حاصل ہوتی ہے،یعنی اس کا قلب یادِ الٰہی سے ہمیشہ معمور رہتا ہے۔

۵۔ اعمال صالحہ پر ثبات قدمی حاصل ہوتی ہے،اس کا مطلب یہ ہے کہ بندہ جس طرح رمضان کے مہینے میں نیک اعمال کی طرف مائل تھا اسی طرح رمضان گزرنے کے بعد بھی اُن اعمال کی طرف خوف و امید کے ساتھ مائل رہتا ہے اور مسلسل عمل کرتاہے ۔
 ان تمام باتوں کا جائزہ لینے کے بعدیہ واضح ہوتاہے کہ بندے کے لیے اعمال صالحہ پر ثابت قدم رہنا، قبول بندگی کی واضح نشانی ہے۔
 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
وَأَنَّ أَحَبَّ الأَعْمَالِ إِلَى اللهِ أَدْوَمُهَا وَإِنْ قَلَّ۔ (بخاری،باب القصد والمداومۃ علی العمل)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام اعمال میں سب سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ ہے جس کی سب سے زیادہ پابندی کی گئی اگرچہ وہ تھوڑاہی ہو ۔
 رمضان مبارک کا مہینہ ہر بندے کے لیے نعمت عظمیٰ  ہے ۔ ہزاروں لو گ اللہ سے غافل رہتے ہیں لیکن رمضان میں ان کی غفلت دور ہوجاتی ہے اور وہ لوگ رمضان کی برکت سے طاعت و عبادت میں لگ جاتے ہیں جس کے بدلے اللہ رب العزت اُنھیں حلاوت ایمانی سے نوازتاہے۔
 اب جب کہ اللہ رب العزت نے رمضان کی برکت سے ہمارے اوپر حلاوت ایمانی کی راہ کو کھول دیاہے تو ہم پر لازم ہے کہ ہم اس نعمت کو ضائع نہ ہونے دیں،بلکہ اُسے آنے والے رمضان تک برقرار رکھیں اور مسلسل عبادت وریاضت میں مصروف رہیں۔

0 Comments

اپنی رائے پیش کریں